میرے دل میرے مسافر ۔۔۔ سہیل سانگی
وزیر داخلہ پنجاب کے دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل نے یقننا لاہور اور اسلام آباد اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کو الرٹ کردیا ہے ۔سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں کا فوری بھی ردعمل بیانات کی شکل میں سامنے آیا ہے۔لیکن یہردعمل روایتی رلگتا ہے۔ اس میں کتنی گہرائی ہے، اس کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یقین کے ساھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ یہ سازش کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان جاری رہے گا۔ پنجاب کابینہ نے ایک قراداد کے ذریعے مرحوم وزیر داخلہ کو دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں دہشتگردوں کے خاتمے کے کئے کوششیں جاری رہیں گی۔
یہ تمام باتیں اچھی ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ ی سب کچھ کس طرح سے ہوگا؟ کون کرے گا وغیرہ۔ ممکن ہے آنے والے چند ماہ میں کسی پریس رلیز کے ذریعے میڈیا کو بتایا جائے کہ ملزمان کسی فضائی حملے یا مقابلے میں مارے گئے۔ ہاں اس امر کا بھی امکان ہے کہ پریس رلیز یہ بتائے کہ ملزمان کو فوجی عدالت نے سزا سنادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس پورے قصے کے ایک دو آخری مناظر ہونگے۔ یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل کون تھے؟ اورپوری کہانی کیا تھی؟ا اس میں کیا موڑ آئے چھوٹے بڑے اداکار، ہدایتکار کون تھے؟ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ جو پریس رلیز میں بتایا جائے گا وہ ایک سرکاری موقف ہوگا۔ جس کی تصدیق میڈیا یا کسی آزاد فریق یا ا دارے کی جانب سے کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ابھی تک اس امر کا جائزہ لینا باقی ہے کہ صوبے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا تھا؟
حکومتی اور عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان، اور خیبر پختونخوا میں دشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں نمایاں کامیابیاں ہوئی ہیں۔ اور دہشتگردوں کے حملوں میں خود شہری علاوں میں بھی کمی آئی ہے۔ کئی دہشتگرد مارے گئے ہیں ان کا نیٹ ورک ٹوڑ دیا گیا ہے ۔ اس طرح کے دعوے پبلک اسکول پشاور کے سانحے سے پہلے بھی کئے جارہے تھے۔ لیکن پھر یہ سانحہ ہوگیا۔
ملک ایک طویل عرصے سے دہشتگروں کی نرسری بنا رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم، رنگ، فکر اور مقاصد رکھنے والے گروپ سرگرم عمل ہیں۔ ان گروپوں نے اپنی اپنی عسکری قوت کو مجبوط کرنے اور ایک دوسرے سے نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ہمارے سماج میں سیاسی سماجی، معاشی اور فکری رشتے بھی بنا لئے ہیں۔ لہذا سیاسی اور عسکری قیادت کے وعدے اپنی جگہ پر لیکن ان کے خلاف ایک طویل، منظم، مربوط اور کثیر رخوں میں لڑائی لڑی جائے گی تب جا کر اس آسیب سے نجات ملے گی۔
پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل کا ایک پس منظریہی ہے۔ دوسرا پس منظر یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں کارروائیاں جاری تھیں۔ لیکن پنجاب واحد صوبہ تھا جہاں شاید اکا دکا کارروائی ہوئی ہو۔ جب خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع ہوا تو مسلح گروپ وہاں سے نکلنا شروع ہوئے اور وہ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔ ان کے زیرین علاقوں میں آنے کا راستہ پنجاب ہی تھا۔ نہ صرف پنجاب کے راستے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل گئے بلکہ بعض نے خود پنجاب کو بھی اپنا مسکن بنایا۔ میڈیا میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ ان لڑاکا گروپوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اور گرپوں کی بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ایک زمانے میں پنجابی طالبان کی اصطلاح بھی چلی تھی۔ اگرچہ پنجاب حکومت اپنی تئیں اس کی تردید کرتی رہی۔ لیکن خفیہ ادارے اور میڈیا کی اطلاعات حکومتی موقف سے مختلف تھیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے موقعہ پر بعض ایسے گرپوں کی جانب سے پنجاب کی حکمران جماعت کی مجموعی حمایت اور نواز لیگ کے بعض اہم صوبائی وزیروں اور اسمبلی ممبران کے رابطوں کی خبروں کی بھی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہوگی۔اس لئے یہ پلان بننے کے فورا بعد مختلف حلقوں سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ پنجاب میں یہ کارروائی کرنا نواز لیگ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ صرف اس کے ووٹ بینک کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر مجموعی سیاسی حمیت کا اشو بھی ہے۔ تجزیہ نگار اس پر بھی مصر ہیں کہ نواز لیگ کی سیاسی یا فکری اساس بھی مذہبی ہ یا دائیں بازو کی ہے۔ اس وجہ سے بھی ایسے عناصر سے فکری اور سیاسی قربت فطری بات ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سے پہلے جب پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں حکومت میں تھی، دہشتگرد کارروائیوں کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی۔ اس لہر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا یہ بیان میڈیا کی زینت بنا جس میں انہوں نے دہشتگردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب کو بخش دیں اور وہاں اس طرح کی کارروائیاں نہ کریں۔ اور پھر واقعی وہاں اس طرح کارروائیاں نہیں ہورہی تھیں جس کا شکار ملک کے دوسرے علاقے ہو رہے تھے۔ پنجاب میں یہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں تب ہونا شروع ہوئیں جب شجاع خانزادہ وزیر داخلہ بنے۔ اسی دوران ملک اسحاق اور ان کے درجن بھر ساتھ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ شجاع خانزادہ کے خود کش بم کے واقعہ میں قتل کے بعد یہ معاملات کسی حد تک سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے نیشنل پلان پر عمل درآمد کے لئے پوری حکمت عملی بنائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کا قتل صرف ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ نہیں بلکہ پوری اس حکمت عملی کو روکنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی حکمران پارٹی کو اپنے گڑھ پنجاب میں ایسا کوئی شخص ڈھونڈنے میں مشکل آرہی ہے جو شجاع خانزادہ کی جگہ کو پر کر سکے۔ کیا صوبائی حکومت خود اب اس بڑے چیلینج سے نمٹے گی یا اس کو سندھ کی طرح رینجرز یا فوج کی ضرورت پڑے گی؟ خدشہ ہے کہ اگراب بھی پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف بھر پور کارروائی نہیں ہوتی تو یہ صوبہ ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔
سندھ بلکہ خود پنجاب کے اہل فکر حضرات کا خیال ہے کہ ملک کے اس بڑے صوبے میں دائیں بازو کی فکر سیاسی طور پر حاوی ہوگئی ہے۔ لبرل ، روشن خیال اور ترقی پسند س فکر سکڑ گئی ہے اور وہ انا اسپیس کھو بیٹھی ہے۔ اسی دائیں بازو کی فکر کے آپس کے تضادات اور ایک دوسرے پر بالادستی ھاصل کرنے کی وجہ سے مختلف لہریں اٹھ رہی ہے۔ عمران خان اور علامہ قادری کا دھرنا ہو یا کوئی اور واقعہ اس کے ڈانڈے یہیں پر جاکر ملتے ہیں۔
نئی بات کے لئے لکھا گیا
وزیر داخلہ پنجاب کے دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل نے یقننا لاہور اور اسلام آباد اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کو الرٹ کردیا ہے ۔سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں کا فوری بھی ردعمل بیانات کی شکل میں سامنے آیا ہے۔لیکن یہردعمل روایتی رلگتا ہے۔ اس میں کتنی گہرائی ہے، اس کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یقین کے ساھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ یہ سازش کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان جاری رہے گا۔ پنجاب کابینہ نے ایک قراداد کے ذریعے مرحوم وزیر داخلہ کو دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں دہشتگردوں کے خاتمے کے کئے کوششیں جاری رہیں گی۔
یہ تمام باتیں اچھی ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ ی سب کچھ کس طرح سے ہوگا؟ کون کرے گا وغیرہ۔ ممکن ہے آنے والے چند ماہ میں کسی پریس رلیز کے ذریعے میڈیا کو بتایا جائے کہ ملزمان کسی فضائی حملے یا مقابلے میں مارے گئے۔ ہاں اس امر کا بھی امکان ہے کہ پریس رلیز یہ بتائے کہ ملزمان کو فوجی عدالت نے سزا سنادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس پورے قصے کے ایک دو آخری مناظر ہونگے۔ یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل کون تھے؟ اورپوری کہانی کیا تھی؟ا اس میں کیا موڑ آئے چھوٹے بڑے اداکار، ہدایتکار کون تھے؟ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ جو پریس رلیز میں بتایا جائے گا وہ ایک سرکاری موقف ہوگا۔ جس کی تصدیق میڈیا یا کسی آزاد فریق یا ا دارے کی جانب سے کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ابھی تک اس امر کا جائزہ لینا باقی ہے کہ صوبے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا تھا؟
حکومتی اور عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان، اور خیبر پختونخوا میں دشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں نمایاں کامیابیاں ہوئی ہیں۔ اور دہشتگردوں کے حملوں میں خود شہری علاوں میں بھی کمی آئی ہے۔ کئی دہشتگرد مارے گئے ہیں ان کا نیٹ ورک ٹوڑ دیا گیا ہے ۔ اس طرح کے دعوے پبلک اسکول پشاور کے سانحے سے پہلے بھی کئے جارہے تھے۔ لیکن پھر یہ سانحہ ہوگیا۔
ملک ایک طویل عرصے سے دہشتگروں کی نرسری بنا رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم، رنگ، فکر اور مقاصد رکھنے والے گروپ سرگرم عمل ہیں۔ ان گروپوں نے اپنی اپنی عسکری قوت کو مجبوط کرنے اور ایک دوسرے سے نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ہمارے سماج میں سیاسی سماجی، معاشی اور فکری رشتے بھی بنا لئے ہیں۔ لہذا سیاسی اور عسکری قیادت کے وعدے اپنی جگہ پر لیکن ان کے خلاف ایک طویل، منظم، مربوط اور کثیر رخوں میں لڑائی لڑی جائے گی تب جا کر اس آسیب سے نجات ملے گی۔
پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل کا ایک پس منظریہی ہے۔ دوسرا پس منظر یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں کارروائیاں جاری تھیں۔ لیکن پنجاب واحد صوبہ تھا جہاں شاید اکا دکا کارروائی ہوئی ہو۔ جب خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع ہوا تو مسلح گروپ وہاں سے نکلنا شروع ہوئے اور وہ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔ ان کے زیرین علاقوں میں آنے کا راستہ پنجاب ہی تھا۔ نہ صرف پنجاب کے راستے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل گئے بلکہ بعض نے خود پنجاب کو بھی اپنا مسکن بنایا۔ میڈیا میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ ان لڑاکا گروپوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اور گرپوں کی بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ایک زمانے میں پنجابی طالبان کی اصطلاح بھی چلی تھی۔ اگرچہ پنجاب حکومت اپنی تئیں اس کی تردید کرتی رہی۔ لیکن خفیہ ادارے اور میڈیا کی اطلاعات حکومتی موقف سے مختلف تھیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے موقعہ پر بعض ایسے گرپوں کی جانب سے پنجاب کی حکمران جماعت کی مجموعی حمایت اور نواز لیگ کے بعض اہم صوبائی وزیروں اور اسمبلی ممبران کے رابطوں کی خبروں کی بھی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہوگی۔اس لئے یہ پلان بننے کے فورا بعد مختلف حلقوں سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ پنجاب میں یہ کارروائی کرنا نواز لیگ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ صرف اس کے ووٹ بینک کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر مجموعی سیاسی حمیت کا اشو بھی ہے۔ تجزیہ نگار اس پر بھی مصر ہیں کہ نواز لیگ کی سیاسی یا فکری اساس بھی مذہبی ہ یا دائیں بازو کی ہے۔ اس وجہ سے بھی ایسے عناصر سے فکری اور سیاسی قربت فطری بات ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سے پہلے جب پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں حکومت میں تھی، دہشتگرد کارروائیوں کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی۔ اس لہر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا یہ بیان میڈیا کی زینت بنا جس میں انہوں نے دہشتگردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب کو بخش دیں اور وہاں اس طرح کی کارروائیاں نہ کریں۔ اور پھر واقعی وہاں اس طرح کارروائیاں نہیں ہورہی تھیں جس کا شکار ملک کے دوسرے علاقے ہو رہے تھے۔ پنجاب میں یہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں تب ہونا شروع ہوئیں جب شجاع خانزادہ وزیر داخلہ بنے۔ اسی دوران ملک اسحاق اور ان کے درجن بھر ساتھ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ شجاع خانزادہ کے خود کش بم کے واقعہ میں قتل کے بعد یہ معاملات کسی حد تک سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے نیشنل پلان پر عمل درآمد کے لئے پوری حکمت عملی بنائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کا قتل صرف ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ نہیں بلکہ پوری اس حکمت عملی کو روکنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی حکمران پارٹی کو اپنے گڑھ پنجاب میں ایسا کوئی شخص ڈھونڈنے میں مشکل آرہی ہے جو شجاع خانزادہ کی جگہ کو پر کر سکے۔ کیا صوبائی حکومت خود اب اس بڑے چیلینج سے نمٹے گی یا اس کو سندھ کی طرح رینجرز یا فوج کی ضرورت پڑے گی؟ خدشہ ہے کہ اگراب بھی پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف بھر پور کارروائی نہیں ہوتی تو یہ صوبہ ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔
سندھ بلکہ خود پنجاب کے اہل فکر حضرات کا خیال ہے کہ ملک کے اس بڑے صوبے میں دائیں بازو کی فکر سیاسی طور پر حاوی ہوگئی ہے۔ لبرل ، روشن خیال اور ترقی پسند س فکر سکڑ گئی ہے اور وہ انا اسپیس کھو بیٹھی ہے۔ اسی دائیں بازو کی فکر کے آپس کے تضادات اور ایک دوسرے پر بالادستی ھاصل کرنے کی وجہ سے مختلف لہریں اٹھ رہی ہے۔ عمران خان اور علامہ قادری کا دھرنا ہو یا کوئی اور واقعہ اس کے ڈانڈے یہیں پر جاکر ملتے ہیں۔
نئی بات کے لئے لکھا گیا