Thursday, August 20, 2015

وزیر داخلہ پنجاب کے قتل کے بعد

میرے دل میرے مسافر ۔۔۔ سہیل سانگی

وزیر داخلہ پنجاب کے دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل نے یقننا لاہور اور اسلام آباد اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کو الرٹ کردیا ہے ۔سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں کا فوری بھی ردعمل بیانات کی شکل میں سامنے آیا ہے۔لیکن یہردعمل روایتی رلگتا ہے۔ اس میں کتنی گہرائی ہے، اس کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یقین کے ساھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ یہ سازش کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان جاری رہے گا۔ پنجاب کابینہ نے ایک قراداد کے ذریعے مرحوم وزیر داخلہ کو دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں دہشتگردوں کے خاتمے کے کئے کوششیں جاری رہیں گی۔
یہ تمام باتیں اچھی ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ ی سب کچھ کس طرح سے ہوگا؟ کون کرے گا وغیرہ۔ ممکن ہے آنے والے چند ماہ میں کسی پریس رلیز کے ذریعے میڈیا کو بتایا جائے کہ ملزمان کسی فضائی حملے یا مقابلے میں مارے گئے۔ ہاں اس امر کا بھی امکان ہے کہ پریس رلیز یہ بتائے کہ ملزمان کو فوجی عدالت نے سزا سنادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس پورے قصے کے ایک دو آخری مناظر ہونگے۔ یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل کون تھے؟ اورپوری کہانی کیا تھی؟ا اس میں کیا موڑ آئے چھوٹے بڑے اداکار، ہدایتکار کون تھے؟ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ جو پریس رلیز میں بتایا جائے گا وہ ایک سرکاری موقف ہوگا۔ جس کی تصدیق میڈیا یا کسی آزاد فریق یا ا دارے کی جانب سے کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ابھی تک اس امر کا جائزہ لینا باقی ہے کہ صوبے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا تھا؟
حکومتی اور عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان، اور خیبر پختونخوا میں دشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں نمایاں کامیابیاں ہوئی ہیں۔ اور دہشتگردوں کے حملوں میں خود شہری علاوں میں بھی کمی آئی ہے۔ کئی دہشتگرد مارے گئے ہیں ان کا نیٹ ورک ٹوڑ دیا گیا ہے ۔ اس طرح کے دعوے پبلک اسکول پشاور کے سانحے سے پہلے بھی کئے جارہے تھے۔ لیکن پھر یہ سانحہ ہوگیا۔
ملک ایک طویل عرصے سے دہشتگروں کی نرسری بنا رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم، رنگ، فکر اور مقاصد رکھنے والے گروپ سرگرم عمل ہیں۔ ان گروپوں نے اپنی اپنی عسکری قوت کو مجبوط کرنے اور ایک دوسرے سے نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ہمارے سماج میں سیاسی سماجی، معاشی اور فکری رشتے بھی بنا لئے ہیں۔ لہذا سیاسی اور عسکری قیادت کے وعدے اپنی جگہ پر لیکن ان کے خلاف ایک طویل، منظم، مربوط اور کثیر رخوں میں لڑائی لڑی جائے گی تب جا کر اس آسیب سے نجات ملے گی۔
پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل کا ایک پس منظریہی ہے۔ دوسرا پس منظر یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں کارروائیاں جاری تھیں۔ لیکن پنجاب واحد صوبہ تھا جہاں شاید اکا دکا کارروائی ہوئی ہو۔ جب خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع ہوا تو مسلح گروپ وہاں سے نکلنا شروع ہوئے اور وہ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔ ان کے زیرین علاقوں میں آنے کا راستہ پنجاب ہی تھا۔ نہ صرف پنجاب کے راستے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل گئے بلکہ بعض نے خود پنجاب کو بھی اپنا مسکن بنایا۔ میڈیا میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ ان لڑاکا گروپوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اور گرپوں کی بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ایک زمانے میں پنجابی طالبان کی اصطلاح بھی چلی تھی۔ اگرچہ پنجاب حکومت اپنی تئیں اس کی تردید کرتی رہی۔ لیکن خفیہ ادارے اور میڈیا کی اطلاعات حکومتی موقف سے مختلف تھیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے موقعہ پر بعض ایسے گرپوں کی جانب سے پنجاب کی حکمران جماعت کی مجموعی حمایت اور نواز لیگ کے بعض اہم صوبائی وزیروں اور اسمبلی ممبران کے رابطوں کی خبروں کی بھی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہوگی۔اس لئے یہ پلان بننے کے فورا بعد مختلف حلقوں سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ پنجاب میں یہ کارروائی کرنا نواز لیگ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ صرف اس کے ووٹ بینک کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر مجموعی سیاسی حمیت کا اشو بھی ہے۔ تجزیہ نگار اس پر بھی مصر ہیں کہ نواز لیگ کی سیاسی یا فکری اساس بھی مذہبی ہ یا دائیں بازو کی ہے۔ اس وجہ سے بھی ایسے عناصر سے فکری اور سیاسی قربت فطری بات ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سے پہلے جب پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں حکومت میں تھی، دہشتگرد کارروائیوں کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی۔ اس لہر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا یہ بیان میڈیا کی زینت بنا جس میں انہوں نے دہشتگردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب کو بخش دیں اور وہاں اس طرح کی کارروائیاں نہ کریں۔ اور پھر واقعی وہاں اس طرح کارروائیاں نہیں ہورہی تھیں جس کا شکار ملک کے دوسرے علاقے ہو رہے تھے۔ پنجاب میں یہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں تب ہونا شروع ہوئیں جب شجاع خانزادہ وزیر داخلہ بنے۔ اسی دوران ملک اسحاق اور ان کے درجن بھر ساتھ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ شجاع خانزادہ کے خود کش بم کے واقعہ میں قتل کے بعد یہ معاملات کسی حد تک سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے نیشنل پلان پر عمل درآمد کے لئے پوری حکمت عملی بنائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کا قتل صرف ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ نہیں بلکہ پوری اس حکمت عملی کو روکنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی حکمران پارٹی کو اپنے گڑھ پنجاب میں ایسا کوئی شخص ڈھونڈنے میں مشکل آرہی ہے جو شجاع خانزادہ کی جگہ کو پر کر سکے۔ کیا صوبائی حکومت خود اب اس بڑے چیلینج سے نمٹے گی یا اس کو سندھ کی طرح رینجرز یا فوج کی ضرورت پڑے گی؟ خدشہ ہے کہ اگراب بھی پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف بھر پور کارروائی نہیں ہوتی تو یہ صوبہ ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔
سندھ بلکہ خود پنجاب کے اہل فکر حضرات کا خیال ہے کہ ملک کے اس بڑے صوبے میں دائیں بازو کی فکر سیاسی طور پر حاوی ہوگئی ہے۔ لبرل ، روشن خیال اور ترقی پسند س فکر سکڑ گئی ہے اور وہ انا اسپیس کھو بیٹھی ہے۔ اسی دائیں بازو کی فکر کے آپس کے تضادات اور ایک دوسرے پر بالادستی ھاصل کرنے کی وجہ سے مختلف لہریں اٹھ رہی ہے۔ عمران خان اور علامہ قادری کا دھرنا ہو یا کوئی اور واقعہ اس کے ڈانڈے یہیں پر جاکر ملتے ہیں۔
نئی بات کے لئے لکھا گیا

Tuesday, August 4, 2015

بازو کی تحریک ’غلطی کہاں ہوئی‘ what Went Wrong

یک بار پھر بائیں بازو کی تحریک اہل دانش اور فکری حلقوں میں موضوع

ایک بار پھر بائیں بازو کی تحریک اہل دانش اور فکری حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

۔ گزشتہ دنوں کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد وغیرہ میں بائیں بازو کے مختلف گروپوں کی جانب سے ان کے اعزاز میں استقبالیے دیئے گئے۔ ان مختلف گروپوں کے کارکنوں کو آپس میں ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کا بھی موقع ملا۔نور ظہیر نے انڈیا میں کمیونسٹوں کے تجربے اور مسائل شیئر کئے۔ اور کہا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بائیں بازو کی فکر پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے۔ انہوں نے بائیں بازو کی پارٹیوں کے بورژوا پارٹیوں سے اتحاد کے بارے میں اپنی ذاتی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تاہم کہا کہ ان کی پارٹی ایسے اتحادوں کی حامی ہے۔
دوسرا موقع کراچی کے ایک صحافی ضمیر شیخ کی کتاب کی تقریب رونمائی تھا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر مبارک علی خان، معراج محمد خان، مظہر عباس، مسلم شمیم کے علاوہ ساٹھ کی دہائی کے بعض طالب علم رہنما بھی موجود تھے۔
ضمیر شیخ کی کتاب what Went Wrong ’’غلطی کہاں ہوئی‘‘ نے موقع فراہم کیا کہ بائیں بازو کی تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات تلاش کی جائیں۔ بایاں بازو یا ترقی پسند تحریک سیات اور فکر میں اہم کردار ادا کیا ہے ڈاکٹر مبارک علی کا خیال تھا کہ کمیونسٹوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی اور بعد میں پچاس کی دہائی کے شروع میں فوجی بغاوت کے ذریعے انقلاب لانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سجاد ظہیر کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل مقرر کرکے بھیجا ، اور پاکستان میں شامل علاقوں میں سے کمیونسٹوں کو نظرانداز کیا گیا۔ تین وجوہات اٹھتے ہی پارٹی کے لیے عوام میں مقبولیت حاصؒ کرنے میں ناکام رہیں۔ بعد میں ایک مقرر نے ان کی بات کو درست کیا کہ 1948 میں پارٹی نے قیام پاکستان کے بارے میں اپنے موقف کو درست کیا تھا۔ معراج محمد خان نے تجویز دی کہ بائیں بازو کے تمام گروپوں کو ملکر کانفرنس کرنی چاہئے اورناکامی کی وجوہات تلاش کرنی چاہئیں۔
ضمیر شیخ نے اپنی کتاب میں پاک امریکہ تعلقات، پارٹی کی مختصر تاریخ، پارٹی کے دو محاذوں طلبہ اور کسان تحریک کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے کوئی نتیجہ نکالنے کے بجائے خود اس دور کے رہنماؤں سے ہی باتیں کی ہیں اور ان باتوں کو جوں کا توں بیان کیا ہے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے انقلابی عہد پر لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر لال خان کی کتاب 1968-69 کا انقلاب اور اصل کہانی کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ مگر ضمیر شیخ ایسے واقعات اور کردار سامنے لائے ہیں جو لال خان کی کتاب یا اس کے مضامین میں موجود نہیں۔ خاص طور پر سندھ کی کسان تحریک۔ کتاب کا ’’جدوجہد سے انٹرویو‘‘ کے نام حصہ زیادہ معلوماتی اور دلچسپ ہے۔ 1954 میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل طفیل عباس کا دعویٰ ہے کہ میاں افتخارالدین، مولانا عبدالحمید بھاشانی کو عوامی نیشنل پارٹی میں ایک ساتھ بٹھانا کمیونسٹ پارٹی کا ہی کارنامہ تھا۔ طفیل عباس پر کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کو گرفتار کرانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ جنہیں بعد میں اذیتیں دے کر لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ حسن ناصر کو رابن ہڈ بننے کا شوق تھا۔اور سخت پابندیوں کے زمانے میں پارٹی کی سرگرمیاں تیز رکھنا چاہتے تھے۔ طفیل عباس کمیونسٹوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کرنے کو کمیونسٹوں کی مجبوری قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھٹو کی حمایت صرف پیکنگ نواز دھڑے نے کی تھی۔ اور طفیل عباس کا تعلق اسی دھڑے سے تھا۔ طفیل عباس کا کہنا ہے کہ نہ صرف سجاد ظہیر بلکہ پارٹی کی پوری قیادت انڈیا سے ہجرت کرکے آئی تھی۔
1962-63 میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ڈاؤ میڈیکل کالج کی طلباء یونین کا صدر منتخب ہونے والے ڈاکٹرحسن عسکری کہتے ہیں کہ پارٹی کے کرتا دھرتا طفیل عباس اور جمال نقوی تھے۔
ساٹھ کی دہائی کے اہم کردار ڈاکٹر رشید حسن خان کا کہنا ہے کہ مشرقی پاکستان کے بائیں بازو نے مغربی پاکستان کے کمیونسٹوں کا رخ درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کاکہنا ہے کہ کراچی ترقی پسندوں کی نرسری تھی جہاں کوئی بھی جاگیردارانہ اور قبائلی اثرات نہیں تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹوں نے بھٹو سے اتحاد کیا ، اس کا فائدہ دونوں فریقوں کو ہوا۔اس کے نتیجے میں رجعت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں عوام میں کھوکھلی ہوئیں۔ اور ملک میں ریڈیٰکل پارٹیوں نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کا چرچہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں یحیٰ خان نے کراچی کو الگ کرنے کا شوشہ چھوڑا جس کی این ایس ایف کے دوسرے دھڑے کے صدر امیر حیدر کاظمی نے حمایت کی۔ جس کی کمیونسٹوں نے مخالفت کرکے اس سازش کو ناکام بنایا۔ رشید حسن خان اس بات کی حمایت نہیں کرتے کہ صرف بھٹو کی وجہ سے بایاں بازو کمزور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اور بھی معروضی فیکٹر تھے۔
معراج محمد خان جو بھٹو کے پہلے دور حکومت میں وفاقی وزیر تھے وہ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ کراچی کے بارہ طالب علم رہنماؤں کے سامنے گورنر نواب کالاباغ بھی مجبور تھے۔ یہ بات بھٹو جیسا زیرک سیاستدان سمجھتا تھا۔ معراج محمد خان بتاتے ہیں کہ بھٹو نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت کے لیے تیار تھے لیکن انہوں نے پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنانے کی شرط رکھی تھی۔ تب نیب کی قیادت ولی خان اور مولانا بھاشانی پر مشتمل تھی جس نے یہ شرط ماننے سے انکار کردیا۔
اسی سیریز میں ایک انٹرویو جانے پہچانے کمیونسٹ رہنما کامریڈ جام ساقی کا بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کی ناکامی کی وجہ ماسکو کی لائین زمینی حقیقتوں کے برعکس لاگو کرنا تھی۔ساٹھ کی دہائی کے بعد جام ساقی پاکستان میں بڑے کمیونسٹ لیڈر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔ کتاب میں ان سے پارٹی کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی کمی محسوس کی گئی۔ مزدور رہنما عزیزالحسن جو داؤد ملز کی تحریک کے اہم رہنما تھے، طالب علم رہنما علی یاور، لطیف چوہدری، راقم الحروف، اور بعض دیگر رہنماؤں کے بھی انٹریو ہیں۔ کتاب کا اختتامیہ صحافی عبدلاحمید چھاپرا نے لکھا ہے۔
کتاب کی رونمائی کے موقع پرتقاریر میں نشاندہی کی گئی کہ وقت کے ساتھ بائیں بازو کے جو بڑے بڑے بت بنے، وہ بعد میں معلمت پسندی کا شکار ہوئے جس سے بھی پارٹی کو نقصان پہنچا۔ مجموعی طور پر کتاب پڑھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ریاستی تشدد، زمینی حقائق کو سمجھے بغیرماسکو کی کی لائن لاگو کرنا بائین بازو کے زوال کا سبب بنے۔