Thursday, August 20, 2015

وزیر داخلہ پنجاب کے قتل کے بعد

میرے دل میرے مسافر ۔۔۔ سہیل سانگی

وزیر داخلہ پنجاب کے دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل نے یقننا لاہور اور اسلام آباد اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان کو الرٹ کردیا ہے ۔سیاسی حکومت اور ریاستی اداروں کا فوری بھی ردعمل بیانات کی شکل میں سامنے آیا ہے۔لیکن یہردعمل روایتی رلگتا ہے۔ اس میں کتنی گہرائی ہے، اس کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد یقین کے ساھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ یہ سازش کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان جاری رہے گا۔ پنجاب کابینہ نے ایک قراداد کے ذریعے مرحوم وزیر داخلہ کو دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں دہشتگردوں کے خاتمے کے کئے کوششیں جاری رہیں گی۔
یہ تمام باتیں اچھی ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ ی سب کچھ کس طرح سے ہوگا؟ کون کرے گا وغیرہ۔ ممکن ہے آنے والے چند ماہ میں کسی پریس رلیز کے ذریعے میڈیا کو بتایا جائے کہ ملزمان کسی فضائی حملے یا مقابلے میں مارے گئے۔ ہاں اس امر کا بھی امکان ہے کہ پریس رلیز یہ بتائے کہ ملزمان کو فوجی عدالت نے سزا سنادی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اس پورے قصے کے ایک دو آخری مناظر ہونگے۔ یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اس کے پیچھے دراصل کون تھے؟ اورپوری کہانی کیا تھی؟ا اس میں کیا موڑ آئے چھوٹے بڑے اداکار، ہدایتکار کون تھے؟ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ جو پریس رلیز میں بتایا جائے گا وہ ایک سرکاری موقف ہوگا۔ جس کی تصدیق میڈیا یا کسی آزاد فریق یا ا دارے کی جانب سے کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ابھی تک اس امر کا جائزہ لینا باقی ہے کہ صوبے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا تھا؟
حکومتی اور عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان، اور خیبر پختونخوا میں دشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں نمایاں کامیابیاں ہوئی ہیں۔ اور دہشتگردوں کے حملوں میں خود شہری علاوں میں بھی کمی آئی ہے۔ کئی دہشتگرد مارے گئے ہیں ان کا نیٹ ورک ٹوڑ دیا گیا ہے ۔ اس طرح کے دعوے پبلک اسکول پشاور کے سانحے سے پہلے بھی کئے جارہے تھے۔ لیکن پھر یہ سانحہ ہوگیا۔
ملک ایک طویل عرصے سے دہشتگروں کی نرسری بنا رہا ہے۔ جس میں مختلف قسم، رنگ، فکر اور مقاصد رکھنے والے گروپ سرگرم عمل ہیں۔ ان گروپوں نے اپنی اپنی عسکری قوت کو مجبوط کرنے اور ایک دوسرے سے نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ہمارے سماج میں سیاسی سماجی، معاشی اور فکری رشتے بھی بنا لئے ہیں۔ لہذا سیاسی اور عسکری قیادت کے وعدے اپنی جگہ پر لیکن ان کے خلاف ایک طویل، منظم، مربوط اور کثیر رخوں میں لڑائی لڑی جائے گی تب جا کر اس آسیب سے نجات ملے گی۔
پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل کا ایک پس منظریہی ہے۔ دوسرا پس منظر یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں کارروائیاں جاری تھیں۔ لیکن پنجاب واحد صوبہ تھا جہاں شاید اکا دکا کارروائی ہوئی ہو۔ جب خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع ہوا تو مسلح گروپ وہاں سے نکلنا شروع ہوئے اور وہ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے۔ ان کے زیرین علاقوں میں آنے کا راستہ پنجاب ہی تھا۔ نہ صرف پنجاب کے راستے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل گئے بلکہ بعض نے خود پنجاب کو بھی اپنا مسکن بنایا۔ میڈیا میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ ان لڑاکا گروپوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اور گرپوں کی بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ایک زمانے میں پنجابی طالبان کی اصطلاح بھی چلی تھی۔ اگرچہ پنجاب حکومت اپنی تئیں اس کی تردید کرتی رہی۔ لیکن خفیہ ادارے اور میڈیا کی اطلاعات حکومتی موقف سے مختلف تھیں۔ گزشتہ عام انتخابات کے موقعہ پر بعض ایسے گرپوں کی جانب سے پنجاب کی حکمران جماعت کی مجموعی حمایت اور نواز لیگ کے بعض اہم صوبائی وزیروں اور اسمبلی ممبران کے رابطوں کی خبروں کی بھی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہوگی۔اس لئے یہ پلان بننے کے فورا بعد مختلف حلقوں سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ پنجاب میں یہ کارروائی کرنا نواز لیگ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ صرف اس کے ووٹ بینک کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر مجموعی سیاسی حمیت کا اشو بھی ہے۔ تجزیہ نگار اس پر بھی مصر ہیں کہ نواز لیگ کی سیاسی یا فکری اساس بھی مذہبی ہ یا دائیں بازو کی ہے۔ اس وجہ سے بھی ایسے عناصر سے فکری اور سیاسی قربت فطری بات ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سے پہلے جب پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں حکومت میں تھی، دہشتگرد کارروائیوں کی ایک بڑی لہر اٹھی تھی۔ اس لہر کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا یہ بیان میڈیا کی زینت بنا جس میں انہوں نے دہشتگردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ پنجاب کو بخش دیں اور وہاں اس طرح کی کارروائیاں نہ کریں۔ اور پھر واقعی وہاں اس طرح کارروائیاں نہیں ہورہی تھیں جس کا شکار ملک کے دوسرے علاقے ہو رہے تھے۔ پنجاب میں یہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں تب ہونا شروع ہوئیں جب شجاع خانزادہ وزیر داخلہ بنے۔ اسی دوران ملک اسحاق اور ان کے درجن بھر ساتھ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ شجاع خانزادہ کے خود کش بم کے واقعہ میں قتل کے بعد یہ معاملات کسی حد تک سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے نیشنل پلان پر عمل درآمد کے لئے پوری حکمت عملی بنائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کا قتل صرف ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ نہیں بلکہ پوری اس حکمت عملی کو روکنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی حکمران پارٹی کو اپنے گڑھ پنجاب میں ایسا کوئی شخص ڈھونڈنے میں مشکل آرہی ہے جو شجاع خانزادہ کی جگہ کو پر کر سکے۔ کیا صوبائی حکومت خود اب اس بڑے چیلینج سے نمٹے گی یا اس کو سندھ کی طرح رینجرز یا فوج کی ضرورت پڑے گی؟ خدشہ ہے کہ اگراب بھی پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف بھر پور کارروائی نہیں ہوتی تو یہ صوبہ ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ نہ بن جائے۔
سندھ بلکہ خود پنجاب کے اہل فکر حضرات کا خیال ہے کہ ملک کے اس بڑے صوبے میں دائیں بازو کی فکر سیاسی طور پر حاوی ہوگئی ہے۔ لبرل ، روشن خیال اور ترقی پسند س فکر سکڑ گئی ہے اور وہ انا اسپیس کھو بیٹھی ہے۔ اسی دائیں بازو کی فکر کے آپس کے تضادات اور ایک دوسرے پر بالادستی ھاصل کرنے کی وجہ سے مختلف لہریں اٹھ رہی ہے۔ عمران خان اور علامہ قادری کا دھرنا ہو یا کوئی اور واقعہ اس کے ڈانڈے یہیں پر جاکر ملتے ہیں۔
نئی بات کے لئے لکھا گیا

Tuesday, August 4, 2015

بازو کی تحریک ’غلطی کہاں ہوئی‘ what Went Wrong

یک بار پھر بائیں بازو کی تحریک اہل دانش اور فکری حلقوں میں موضوع

ایک بار پھر بائیں بازو کی تحریک اہل دانش اور فکری حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

۔ گزشتہ دنوں کمیونسٹ رہنما سجاد ظہیر کی بیٹی نور ظہیر پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد وغیرہ میں بائیں بازو کے مختلف گروپوں کی جانب سے ان کے اعزاز میں استقبالیے دیئے گئے۔ ان مختلف گروپوں کے کارکنوں کو آپس میں ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کا بھی موقع ملا۔نور ظہیر نے انڈیا میں کمیونسٹوں کے تجربے اور مسائل شیئر کئے۔ اور کہا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بائیں بازو کی فکر پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے۔ انہوں نے بائیں بازو کی پارٹیوں کے بورژوا پارٹیوں سے اتحاد کے بارے میں اپنی ذاتی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تاہم کہا کہ ان کی پارٹی ایسے اتحادوں کی حامی ہے۔
دوسرا موقع کراچی کے ایک صحافی ضمیر شیخ کی کتاب کی تقریب رونمائی تھا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر مبارک علی خان، معراج محمد خان، مظہر عباس، مسلم شمیم کے علاوہ ساٹھ کی دہائی کے بعض طالب علم رہنما بھی موجود تھے۔
ضمیر شیخ کی کتاب what Went Wrong ’’غلطی کہاں ہوئی‘‘ نے موقع فراہم کیا کہ بائیں بازو کی تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات تلاش کی جائیں۔ بایاں بازو یا ترقی پسند تحریک سیات اور فکر میں اہم کردار ادا کیا ہے ڈاکٹر مبارک علی کا خیال تھا کہ کمیونسٹوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی اور بعد میں پچاس کی دہائی کے شروع میں فوجی بغاوت کے ذریعے انقلاب لانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سجاد ظہیر کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل مقرر کرکے بھیجا ، اور پاکستان میں شامل علاقوں میں سے کمیونسٹوں کو نظرانداز کیا گیا۔ تین وجوہات اٹھتے ہی پارٹی کے لیے عوام میں مقبولیت حاصؒ کرنے میں ناکام رہیں۔ بعد میں ایک مقرر نے ان کی بات کو درست کیا کہ 1948 میں پارٹی نے قیام پاکستان کے بارے میں اپنے موقف کو درست کیا تھا۔ معراج محمد خان نے تجویز دی کہ بائیں بازو کے تمام گروپوں کو ملکر کانفرنس کرنی چاہئے اورناکامی کی وجوہات تلاش کرنی چاہئیں۔
ضمیر شیخ نے اپنی کتاب میں پاک امریکہ تعلقات، پارٹی کی مختصر تاریخ، پارٹی کے دو محاذوں طلبہ اور کسان تحریک کا جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے کوئی نتیجہ نکالنے کے بجائے خود اس دور کے رہنماؤں سے ہی باتیں کی ہیں اور ان باتوں کو جوں کا توں بیان کیا ہے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے انقلابی عہد پر لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر لال خان کی کتاب 1968-69 کا انقلاب اور اصل کہانی کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ مگر ضمیر شیخ ایسے واقعات اور کردار سامنے لائے ہیں جو لال خان کی کتاب یا اس کے مضامین میں موجود نہیں۔ خاص طور پر سندھ کی کسان تحریک۔ کتاب کا ’’جدوجہد سے انٹرویو‘‘ کے نام حصہ زیادہ معلوماتی اور دلچسپ ہے۔ 1954 میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل طفیل عباس کا دعویٰ ہے کہ میاں افتخارالدین، مولانا عبدالحمید بھاشانی کو عوامی نیشنل پارٹی میں ایک ساتھ بٹھانا کمیونسٹ پارٹی کا ہی کارنامہ تھا۔ طفیل عباس پر کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کو گرفتار کرانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ جنہیں بعد میں اذیتیں دے کر لاہور کے شاہی قلعہ میں شہید کردیا گیا تھا۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ حسن ناصر کو رابن ہڈ بننے کا شوق تھا۔اور سخت پابندیوں کے زمانے میں پارٹی کی سرگرمیاں تیز رکھنا چاہتے تھے۔ طفیل عباس کمیونسٹوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کرنے کو کمیونسٹوں کی مجبوری قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھٹو کی حمایت صرف پیکنگ نواز دھڑے نے کی تھی۔ اور طفیل عباس کا تعلق اسی دھڑے سے تھا۔ طفیل عباس کا کہنا ہے کہ نہ صرف سجاد ظہیر بلکہ پارٹی کی پوری قیادت انڈیا سے ہجرت کرکے آئی تھی۔
1962-63 میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ڈاؤ میڈیکل کالج کی طلباء یونین کا صدر منتخب ہونے والے ڈاکٹرحسن عسکری کہتے ہیں کہ پارٹی کے کرتا دھرتا طفیل عباس اور جمال نقوی تھے۔
ساٹھ کی دہائی کے اہم کردار ڈاکٹر رشید حسن خان کا کہنا ہے کہ مشرقی پاکستان کے بائیں بازو نے مغربی پاکستان کے کمیونسٹوں کا رخ درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کاکہنا ہے کہ کراچی ترقی پسندوں کی نرسری تھی جہاں کوئی بھی جاگیردارانہ اور قبائلی اثرات نہیں تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹوں نے بھٹو سے اتحاد کیا ، اس کا فائدہ دونوں فریقوں کو ہوا۔اس کے نتیجے میں رجعت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں عوام میں کھوکھلی ہوئیں۔ اور ملک میں ریڈیٰکل پارٹیوں نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کا چرچہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں یحیٰ خان نے کراچی کو الگ کرنے کا شوشہ چھوڑا جس کی این ایس ایف کے دوسرے دھڑے کے صدر امیر حیدر کاظمی نے حمایت کی۔ جس کی کمیونسٹوں نے مخالفت کرکے اس سازش کو ناکام بنایا۔ رشید حسن خان اس بات کی حمایت نہیں کرتے کہ صرف بھٹو کی وجہ سے بایاں بازو کمزور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اور بھی معروضی فیکٹر تھے۔
معراج محمد خان جو بھٹو کے پہلے دور حکومت میں وفاقی وزیر تھے وہ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ کراچی کے بارہ طالب علم رہنماؤں کے سامنے گورنر نواب کالاباغ بھی مجبور تھے۔ یہ بات بھٹو جیسا زیرک سیاستدان سمجھتا تھا۔ معراج محمد خان بتاتے ہیں کہ بھٹو نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت کے لیے تیار تھے لیکن انہوں نے پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنانے کی شرط رکھی تھی۔ تب نیب کی قیادت ولی خان اور مولانا بھاشانی پر مشتمل تھی جس نے یہ شرط ماننے سے انکار کردیا۔
اسی سیریز میں ایک انٹرویو جانے پہچانے کمیونسٹ رہنما کامریڈ جام ساقی کا بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کی ناکامی کی وجہ ماسکو کی لائین زمینی حقیقتوں کے برعکس لاگو کرنا تھی۔ساٹھ کی دہائی کے بعد جام ساقی پاکستان میں بڑے کمیونسٹ لیڈر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔ کتاب میں ان سے پارٹی کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی کمی محسوس کی گئی۔ مزدور رہنما عزیزالحسن جو داؤد ملز کی تحریک کے اہم رہنما تھے، طالب علم رہنما علی یاور، لطیف چوہدری، راقم الحروف، اور بعض دیگر رہنماؤں کے بھی انٹریو ہیں۔ کتاب کا اختتامیہ صحافی عبدلاحمید چھاپرا نے لکھا ہے۔
کتاب کی رونمائی کے موقع پرتقاریر میں نشاندہی کی گئی کہ وقت کے ساتھ بائیں بازو کے جو بڑے بڑے بت بنے، وہ بعد میں معلمت پسندی کا شکار ہوئے جس سے بھی پارٹی کو نقصان پہنچا۔ مجموعی طور پر کتاب پڑھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ریاستی تشدد، زمینی حقائق کو سمجھے بغیرماسکو کی کی لائن لاگو کرنا بائین بازو کے زوال کا سبب بنے۔

Tuesday, July 7, 2015

معیشت کی صحت مند ی اور آئی ایم ایف کا سرٹیفکیٹ

معیشت کی صحت مند ی اور آئی ایم ایف کا سرٹیفکیٹ
میرے دل میرے مسافر
 سہیل سانگی
آئی ایم ایف کے حالیہ جائزے میں پاکستانی معیشت کی ترقی کو امید افزا قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ 2013 میں اس عالمی ارادے سے پاکستان کا معاہدہ بتایاجاتا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو بعض سخت مالی اور معاشی اقدامات کیے گئے تھے۔ اگر صرف اسکو ایک آنکھ سے دیکھا جائی پاکستان کی معیشت کی کارکردگی اچھی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں۔ مالی پالیسیاں جو کہ مائکرو انڈیکیٹر کے زمزے میں آتی ہیں، دراصل یہ سب دکھاوے کی کہانی ہے ۔ اصل بات اس کہانی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ کس طرح سے حاصل کیا گیا؟کس قیمت پر؟اس کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہونگے؟ لیکن حکومت خوش ہے اور عوام کو بھی خوش خبری دے رہی ہے کہ سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔
 
ملکی معیشت کے اصل حقائق کچھ اور ہیں:برآمدات گر رہی ہیں۔ صنعتیں بند ہورہی ہیں سرمایہ کاری کا بھی حال اچھا نہیں۔ ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بینکوں کے منافع میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب ملکی معیشت کے حقیقی وارثوں کے لئے منفی اشارے ہیں۔

معیشت کی اس حالت پرباہر کے قرضہ دینے والے خوش ہیں کہ پاکستان اس قابل ہے کہ اسکو قرضہ دیا جاسکتا ہے۔ یعنی ملک قرضہ ادا کرنے کی حیثیت میں آگیا ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے ملک کی اچھی صحت کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا ہے۔ کسی بھی ملک میں معاشی یا سیاسی حالات کچھ بھی ہوں مالیاتی اداروں کو ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ اس نے جو قرضہ دیا ہے وہ واپس ادا ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہو سکتا ہے تو اسکو کوئی فکر نہیں وہ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی ہی رپورٹ دے گا۔
 
قیام پاکستان کے بعد اپنی معیشت، اپنی صنعت اور اپنا معاشی نظام بنانے میں ناکام رہے۔ اور بڑی حد تک غیر ملکی امداد اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کیا گیا۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ مختلف ممالک خاص طور پر امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فوجی اور حکمت عملی کے مفادات کے تحت پاکستان کو امداد دیتے رہے۔ اور غیر ملکی پیسے کا حصول خارجہ پالیسی کا حصہ بن گیا۔ لیکن ستر کے عشرے سے حالات بدلنا شروع ہوئے اور اسی کے عشرے کے آخر تک پوری دنیا ہی بدل گئی جب سوویت یونین کا زوال ہوا۔ یہ وہ صورتحال تھی کہ کئی عشروں سے فوجی حکمت عملی کے حولاے سے امریکہ جیسے اتحادی اور دوست نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پاکستاں کو بیرونی مالی مدد یا قرضہ کے لئے اب عالمی ملیاتی اداروں یعنی عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ پر بڑے پیمانے پر انحصار کرنا پڑا۔
 
جب سے عالمی مالیاتی اداروں کے جال میں پاکستان پھنسا ہے اسکو ہمیشہ اس خطرے میں رہتا ہے کہ وہ اپنے معاشی پالیسیان اس طرح سے رکھے کہ قرضہ کی قسط ادا کرتا رہے۔چاہے اس کے نتیجے میں عوام کے معاشی حالات کچھ بھی ہوں۔ بالفاظ دیگرے قرضہ دینے الوں کو مطمئن رکھے۔ حکومتیں جب اس فلسفے کے تحت کام کرتی ہیں ان کے فیصلے احمقانہ ہوتے ہیں۔
 
اب عالمی کریڈٹ ریٹنگ اداروں اور قرضہ دینے والوں کی واہ واہ اورعالمی غیر سرکاری اداروں پر برہمی سامنے آئی ہے۔ اس سے نیت مشکوک نظر آتی ہے۔ یہ عالمی مالیاتی ادارے ہمارے معاشی منیجروں کے لاڈلے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اور حکومت ان کی خدمت کر کے خوششی محسوس کرتی ہے۔ جب کہ این جی اوز وغیرہ نچلی سطح پر کام کرنے والے اور انہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سیکٹر کی پالیسی ساز حلقوں میں کم آواز ہے۔
 
پاکستان میں اس سے بہتر معاشی انتظام کاری کی ضرورت ہے۔اپنا معاشی نظام بنانے اور ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کے بجائے اپنے حالات بہتر کرنے کے لئے صرف آئی ایم یاف کی طرف دیکھنا فضول اور مضر رساں مشق لگتی ہے۔
 
دعوے اپنی جگہ پر، عملا اس میں بہت کم صداقت ہے کہ حکومت نے نہ توانائی کے شعبے کو بحال کرسکی ہے اور نہ ہی ٹیکس کی بنیاد وسیع ک کر پائی ہے۔ عوامی بھلائی ،خدمات اور بھلائی کے اخراجات کم کر کے مالی خسارہ کم کیا گیا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر کوئی قدغن نہیں۔ پھر وہ وزیراعظم ہاؤس ، ایوان صدر ، وزراء اعلیٰ کے اخراجات ہوں یا اراکین اسمبلی کی تنخواہیں اور دیگر سہولیات اور اخراجات ہوں۔
 
معیشت میں جو ترقی ایسے شعبے میں ہوئی ہے جو پرندے کی طرح ایک رات میں اڑ کر جا سکتے ہیں۔ مثلا خدمات یا تعمیرات کا شعبہ۔ جبکہ روزگار پیدا کرنے والی صنعتیں بری حالت میں ہیں۔ حقیقی چیلینج یہ ہے کہ’’ بالائی طبقے کی کی خدمت کرو اور اس کی قیمت کو وزن غریبوں پر ڈالو‘‘ پر مکمل عمل ہو رہا ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی سیاسی قیادت کی اپنی پیداوار ہے۔ جس پر وہ سالہا سال سیکاربند ہے اور موجودہ حکومت بھی اس سے مستنیٰ نہیں۔ آئی ایم ایف کے اس جائزے کے بعد کیا ہوگا؟ توانائی کے شعبے کی نالائقیوں کی مزید قیمت لوگ ادا کریں۔ ان پر بھاری ٹیکس لگتا رہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں ہیں۔
 
اب آئی ایم ایف کے کردار اور اس کی حقیقی کاکردگی کو پرکھنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سرمایہ داری نظام کو سہارا دینے اور دنیا بھر میں اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے قائم کئے گئے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ کسی عوامی تنقید یا اعتراض کو حساب میں نہیں لاتی۔ جبکہ اس کا دعوا ہے کہ وہ عام لوگوں کے بھلے کے لئے کر رہی ہے۔ بعض ممالک میں آئی ایم ایف نے ایسے معاہدے بھی کئے جو دستخط ہونے اور بعض صورتوں میں قرضہ جاری ہونے تک خفیہ رکھے گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ قرض دار ملکوں کے عوام نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا۔
 
اس ادارے کی پالسیوں اور فیصلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی پالیسیاں پوری دنیا پر نافذ کی جارہی ہیں جن پر امریکہ کا اتفاق رائے ہے۔جبکہ ہر ملک کی سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی صورتحال کو حساب میں نہیں لیا جاتا۔ اس کے نیتجے میں ان پالیسیوں پر عمل درآمد اور ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور قرضہ دینے والا ادارہ ایک سود خور کی طرح اپنا منافع وصول کرتا رہتا ہے۔ اور مزید قرضہ دیکر اپنے جال میں پھنساتا رہتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس ادارے کو قرضہ دینے سے پہلے ان ممالک کی معیشت اور سیاسی فضا کا مطالعہ کرنا چہائے۔ اور دیکھنا چاہئے کہ اس کی مداخلت کے اس معاشرے پر مجموعی طور کیا اثرات مرتب ہونگے؟
 
آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو وہ اپنی کڑی شرائط عائد کرتا ہے۔ اور مخصوص معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کو مشروط بناتا ہے۔ مثلا سرکاری اخراجات کم کئے جائیں۔ ٹیکس بڑھائے جائیں۔ عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے۔ لوگوں کی بنیادی سہولیات تعلیم، صحت، پینے کے پانی وغیرہ پر حکومتی اخراجات کم کئے جائیں۔ کرنسی کے استحکام کے لئے سود کے نرخ بڑھائے جائیں۔ نتیجے میں جو فرمیں ناکام ہوتی ہیں وہ دیوالیہ ہو جائیں۔ سرکاری صنعتوں اور تجارتی اداروں کی نجکاری کی جائے ، بیوروکریسی میں کرپشن ختم کی جائے وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مالیاتی ادارے کے اس مداخلت اور مخصوص قسم کی پالیسیاں دینے سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ جب سے ملک میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا عمل دخل بڑھا ہے کرپشن اور دیگر بیوروکریٹک بے قاعدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
 
گزشتہ بیس سال کا تجربہ اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ اور بتاتا ہے۔ نوے کے عشرے کے آخر میں آئی ایم ایف نے بعض ایشیائی ممالک خاص طور پر انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائلینڈ پر زور دیا کہ وہ وہ اپنی مالی پلایسی سخت کرے بجٹ کا خسارہ کم کرے ان پالیسیوں سے کساد بازاری پیدا ہوئی اور بیروزگاری بڑھی۔ 2001 میں ارجنٹائن کو بھی اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا۔ اس سے عوامی خدمات کے شعبے میں سرمایہ کاری کم ہوگئی اور معیشت کو دھچکا لگا۔ یونان کو دو مرتبہ بیل آؤٹ پیکیج دیا گیا۔ لیکن سقراط کا ملک ابھی بھی سکرات کے عالم میں ہے۔ 

نوے کے عشرے میں کینیا میں پیسے کی منتقلی پر کنٹرول ختم کردیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کرپٹ سیاستدانوں کے لئے آسان ہوگیا کہ وہ اپنا پیسہ بیرون ملک منتقل کردیں اور یوں یہ تمام رقم ملکی معیشت کے دائرے سے باہر چلی گئی۔ کسی ملک کے حالات کو سمجھے بغیر اندھادھند اپنی پالیسی نافذ کرنے کی ناکامی کی یہ ایک اور مثال تھی۔ 

 ایسا ہی تجربہ پاکستان کو بھی ہوا، جس کے کچھ مناظر ہم نوے کے عشرے میں دیکھ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے کرناسی میں کمی کرنی پڑتی ہے۔ کرسی کی قیمت میں کمی سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ فری مارکیٹ پالیسی ہر ملک میں اور ہر حالت میں کامیاب نہیں ہوتی۔ پرائیویٹائزیشن نجی شعبے کی اجارہ داری داری قائم کردیتی ہے جو صارفین یعنی عام آدمی کو لوٹتا رہتا ہے۔

ہاورڈ انسٹیٹیوٹ آف ڈولپمنٹ کے سربراہ جیری سچیز نے کیا خوب کہا ہے: ’’واشنگٹن کی 19 ویں اسٹریٹ میں بیٹھے ہوئے 1000 معیشت دان 75 ترقی پذیر ممالک میں ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی پر اپنی مرضی کی معاشی پالیسیاں اور شرائط ڈکٹیٹ کراتے ہیں ۔ ‘‘
 
دراصل آئی ایم ایف ایک ایسا ناقص نظام معیشت لاگو کر رہا ہے جس میں لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ برآمدات والی اشیاء پیدا کریں اس کے بجائے ملکی ضروریات کی جو مختلف اشیاء ہیں وہ پیدا کرنا چھوڑ دیں۔ دنیا کے غذائیت کی قلت والے بچوں میں سے 80 فیصد ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں کاشکاروں کو لالچ، دباؤ، اور پالسیوں کے ذریعے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ مقامی آبادی کی خوراک کی اجناس پیدا کرنے کے بجائے برآمدات کی اشیاء پیدا کریں جو کہ مالدار ممالک کی ضروریات ہوں۔ آئی ایم ایف ملکی یا چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تاکہ کثیرالقومی کمپنیوں کی مصنوعات کے لئے مارکیٹ پیدا ہوسکے۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں چھوٹا کاروباری اور کاشتکار مقابلہ یا مسابقت نہیں کر سکتا۔
 
آئی ایم ایف اور عالمی بینک متعلقہ ممالک کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پر کشش حالات بنانے کے واسطے مزدوروں سے متعلق قوانین میں نرمی کریں۔ اجتماعی سودہ کاری کے قانون کو بھی ایک طرف رکھ دیں۔ اس کے نیتجے میں کارپویشنوں کو سستا مزدور مل جاتا ہے جسے کسی بھی وقت ملازمت سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے چند مناظر ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں س۔ ملک میں موجود ٹھیکہ داری سسٹم، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ نتیجے میں ملازم پیشہ افراد کو حاصل سماجی تحفظ کا نظام عملا ختم ہوگیا۔ 

جنوبی کوریا، انڈونیشیا، تھائلینڈ میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نیتجے میں 200 ملین نئے غریب پیدا ہوئے۔ غربت جاری ہی نہیں رہتی بلکہ بڑھتی رہتی ہے اور آئی ایم ایف کا قرضہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ اب ہم خود فیصلہ کرلیں کہ عالمی ادارے کی جانب سے ہماری معیشت کی صحت کی چٹ کی کیا معنی ہیں؟
  Sohail Sangi  - July 7, 2015