معیشت کی صحت مند ی اور آئی ایم ایف کا سرٹیفکیٹ
میرے دل میرے مسافر
میرے دل میرے مسافر
سہیل سانگی
آئی ایم ایف کے حالیہ جائزے میں پاکستانی معیشت کی ترقی کو امید افزا قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ 2013 میں اس عالمی ارادے سے پاکستان کا معاہدہ بتایاجاتا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو بعض سخت مالی اور معاشی اقدامات کیے گئے تھے۔ اگر صرف اسکو ایک آنکھ سے دیکھا جائی پاکستان کی معیشت کی کارکردگی اچھی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں۔ مالی پالیسیاں جو کہ مائکرو انڈیکیٹر کے زمزے میں آتی ہیں، دراصل یہ سب دکھاوے کی کہانی ہے ۔ اصل بات اس کہانی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ کس طرح سے حاصل کیا گیا؟کس قیمت پر؟اس کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہونگے؟ لیکن حکومت خوش ہے اور عوام کو بھی خوش خبری دے رہی ہے کہ سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے حالیہ جائزے میں پاکستانی معیشت کی ترقی کو امید افزا قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ 2013 میں اس عالمی ارادے سے پاکستان کا معاہدہ بتایاجاتا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو بعض سخت مالی اور معاشی اقدامات کیے گئے تھے۔ اگر صرف اسکو ایک آنکھ سے دیکھا جائی پاکستان کی معیشت کی کارکردگی اچھی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں۔ مالی پالیسیاں جو کہ مائکرو انڈیکیٹر کے زمزے میں آتی ہیں، دراصل یہ سب دکھاوے کی کہانی ہے ۔ اصل بات اس کہانی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ کس طرح سے حاصل کیا گیا؟کس قیمت پر؟اس کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہونگے؟ لیکن حکومت خوش ہے اور عوام کو بھی خوش خبری دے رہی ہے کہ سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔
ملکی معیشت کے اصل حقائق کچھ اور ہیں:برآمدات گر رہی ہیں۔ صنعتیں بند
ہورہی ہیں سرمایہ کاری کا بھی حال اچھا نہیں۔ ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ
رہی ہیں۔ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بینکوں کے منافع میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ یہ سب ملکی معیشت کے حقیقی وارثوں کے لئے منفی اشارے ہیں۔
معیشت کی اس حالت پرباہر کے قرضہ دینے والے خوش ہیں کہ پاکستان اس قابل ہے کہ اسکو قرضہ دیا جاسکتا ہے۔ یعنی ملک قرضہ ادا کرنے کی حیثیت میں آگیا ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے ملک کی اچھی صحت کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا ہے۔ کسی بھی ملک میں معاشی یا سیاسی حالات کچھ بھی ہوں مالیاتی اداروں کو ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ اس نے جو قرضہ دیا ہے وہ واپس ادا ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہو سکتا ہے تو اسکو کوئی فکر نہیں وہ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی ہی رپورٹ دے گا۔
قیام پاکستان کے بعد اپنی معیشت، اپنی صنعت اور اپنا معاشی نظام بنانے
میں ناکام رہے۔ اور بڑی حد تک غیر ملکی امداد اور غیر ملکی قرضوں پر
انحصار کیا گیا۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ مختلف ممالک خاص طور پر امریکہ
اور مغربی ممالک اپنے فوجی اور حکمت عملی کے مفادات کے تحت پاکستان کو
امداد دیتے رہے۔ اور غیر ملکی پیسے کا حصول خارجہ پالیسی کا حصہ بن گیا۔
لیکن ستر کے عشرے سے حالات بدلنا شروع ہوئے اور اسی کے عشرے کے آخر تک
پوری دنیا ہی بدل گئی جب سوویت یونین کا زوال ہوا۔ یہ وہ صورتحال تھی کہ
کئی عشروں سے فوجی حکمت عملی کے حولاے سے امریکہ جیسے اتحادی اور دوست نے
بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پاکستاں کو بیرونی مالی مدد یا قرضہ کے لئے
اب عالمی ملیاتی اداروں یعنی عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ پر بڑے
پیمانے پر انحصار کرنا پڑا۔
جب سے عالمی مالیاتی اداروں کے جال میں پاکستان پھنسا ہے اسکو ہمیشہ اس
خطرے میں رہتا ہے کہ وہ اپنے معاشی پالیسیان اس طرح سے رکھے کہ قرضہ کی
قسط ادا کرتا رہے۔چاہے اس کے نتیجے میں عوام کے معاشی حالات کچھ بھی ہوں۔
بالفاظ دیگرے قرضہ دینے الوں کو مطمئن رکھے۔ حکومتیں جب اس فلسفے کے تحت
کام کرتی ہیں ان کے فیصلے احمقانہ ہوتے ہیں۔
اب عالمی کریڈٹ ریٹنگ اداروں اور قرضہ دینے والوں کی واہ واہ
اورعالمی غیر سرکاری اداروں پر برہمی سامنے آئی ہے۔ اس سے نیت مشکوک
نظر آتی ہے۔ یہ عالمی مالیاتی ادارے ہمارے معاشی منیجروں کے لاڈلے اسٹیک
ہولڈرز ہیں۔ اور حکومت ان کی خدمت کر کے خوششی محسوس کرتی ہے۔ جب کہ این
جی اوز وغیرہ نچلی سطح پر کام کرنے والے اور انہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ لیکن اس سیکٹر کی پالیسی ساز حلقوں میں کم آواز ہے۔
پاکستان میں اس سے بہتر معاشی انتظام کاری کی ضرورت ہے۔اپنا معاشی نظام
بنانے اور ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑے کرنے کے بجائے اپنے حالات
بہتر کرنے کے لئے صرف آئی ایم یاف کی طرف دیکھنا فضول اور مضر رساں مشق
لگتی ہے۔
دعوے اپنی جگہ پر، عملا اس میں بہت کم صداقت ہے کہ حکومت نے نہ توانائی کے
شعبے کو بحال کرسکی ہے اور نہ ہی ٹیکس کی بنیاد وسیع ک کر پائی ہے۔
عوامی بھلائی ،خدمات اور بھلائی کے اخراجات کم کر کے مالی خسارہ کم کیا
گیا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر کوئی قدغن نہیں۔ پھر وہ وزیراعظم
ہاؤس ، ایوان صدر ، وزراء اعلیٰ کے اخراجات ہوں یا اراکین اسمبلی کی
تنخواہیں اور دیگر سہولیات اور اخراجات ہوں۔
معیشت میں جو ترقی ایسے شعبے میں ہوئی ہے جو پرندے کی طرح ایک رات میں اڑ
کر جا سکتے ہیں۔ مثلا خدمات یا تعمیرات کا شعبہ۔ جبکہ روزگار پیدا کرنے
والی صنعتیں بری حالت میں ہیں۔ حقیقی چیلینج یہ ہے کہ’’ بالائی طبقے کی
کی خدمت کرو اور اس کی قیمت کو وزن غریبوں پر ڈالو‘‘ پر مکمل عمل ہو رہا
ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی سیاسی قیادت کی اپنی پیداوار ہے۔ جس پر وہ
سالہا سال سیکاربند ہے اور موجودہ حکومت بھی اس سے مستنیٰ نہیں۔ آئی ایم
ایف کے اس جائزے کے بعد کیا ہوگا؟ توانائی کے شعبے کی نالائقیوں کی مزید
قیمت لوگ ادا کریں۔ ان پر بھاری ٹیکس لگتا رہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں
ہیں۔
اب آئی ایم ایف کے کردار اور اس کی حقیقی کاکردگی کو پرکھنا بہت ضروری
ہوگیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سرمایہ داری نظام کو
سہارا دینے اور دنیا بھر میں اس نظام کو نافذ کرنے کے لئے قائم کئے گئے
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ کسی
عوامی تنقید یا اعتراض کو حساب میں نہیں لاتی۔ جبکہ اس کا دعوا ہے کہ وہ
عام لوگوں کے بھلے کے لئے کر رہی ہے۔ بعض ممالک میں آئی ایم ایف نے
ایسے معاہدے بھی کئے جو دستخط ہونے اور بعض صورتوں میں قرضہ جاری ہونے تک
خفیہ رکھے گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ قرض دار ملکوں کے عوام نے اس پر شدید
ردعمل کا اظہار بھی کیا۔
اس ادارے کی پالسیوں اور فیصلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی
پالیسیاں پوری دنیا پر نافذ کی جارہی ہیں جن پر امریکہ کا اتفاق رائے
ہے۔جبکہ ہر ملک کی سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی صورتحال کو حساب میں
نہیں لیا جاتا۔ اس کے نیتجے میں ان پالیسیوں پر عمل درآمد اور ان سے
مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور قرضہ دینے والا ادارہ ایک
سود خور کی طرح اپنا منافع وصول کرتا رہتا ہے۔ اور مزید قرضہ دیکر اپنے
جال میں پھنساتا رہتا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس ادارے کو قرضہ دینے
سے پہلے ان ممالک کی معیشت اور سیاسی فضا کا مطالعہ کرنا چہائے۔ اور
دیکھنا چاہئے کہ اس کی مداخلت کے اس معاشرے پر مجموعی طور کیا اثرات مرتب
ہونگے؟
آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو وہ اپنی کڑی شرائط عائد کرتا
ہے۔ اور مخصوص معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کو مشروط بناتا ہے۔ مثلا
سرکاری اخراجات کم کئے جائیں۔ ٹیکس بڑھائے جائیں۔ عوام کو دی جانے والی
سبسڈی ختم کی جائے۔ لوگوں کی بنیادی سہولیات تعلیم، صحت، پینے کے پانی
وغیرہ پر حکومتی اخراجات کم کئے جائیں۔ کرنسی کے استحکام کے لئے سود کے
نرخ بڑھائے جائیں۔ نتیجے میں جو فرمیں ناکام ہوتی ہیں وہ دیوالیہ ہو
جائیں۔ سرکاری صنعتوں اور تجارتی اداروں کی نجکاری کی جائے ، بیوروکریسی
میں کرپشن ختم کی جائے وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مالیاتی ادارے کے اس
مداخلت اور مخصوص قسم کی پالیسیاں دینے سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ جب
سے ملک میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا عمل دخل بڑھا ہے کرپشن اور
دیگر بیوروکریٹک بے قاعدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ بیس سال کا تجربہ اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ اور بتاتا
ہے۔ نوے کے عشرے کے آخر میں آئی ایم ایف نے بعض ایشیائی ممالک خاص طور پر
انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائلینڈ پر زور دیا کہ وہ وہ اپنی مالی پلایسی
سخت کرے بجٹ کا خسارہ کم کرے ان پالیسیوں سے کساد بازاری پیدا ہوئی اور
بیروزگاری بڑھی۔ 2001 میں ارجنٹائن کو بھی اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے
کہا گیا۔ اس سے عوامی خدمات کے شعبے میں سرمایہ کاری کم ہوگئی اور معیشت
کو دھچکا لگا۔ یونان کو دو مرتبہ بیل آؤٹ پیکیج دیا گیا۔ لیکن سقراط کا
ملک ابھی بھی سکرات کے عالم میں ہے۔
نوے کے عشرے میں کینیا میں پیسے کی منتقلی پر کنٹرول ختم کردیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کرپٹ سیاستدانوں کے لئے آسان ہوگیا کہ وہ اپنا پیسہ بیرون ملک منتقل کردیں اور یوں یہ تمام رقم ملکی معیشت کے دائرے سے باہر چلی گئی۔ کسی ملک کے حالات کو سمجھے بغیر اندھادھند اپنی پالیسی نافذ کرنے کی ناکامی کی یہ ایک اور مثال تھی۔
ایسا ہی تجربہ پاکستان کو بھی ہوا،
جس کے کچھ مناظر ہم نوے کے عشرے میں دیکھ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی
شرائط کی وجہ سے کرناسی میں کمی کرنی پڑتی ہے۔ کرسی کی قیمت میں کمی سے
افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ فری مارکیٹ پالیسی ہر ملک میں اور ہر حالت
میں کامیاب نہیں ہوتی۔ پرائیویٹائزیشن نجی شعبے کی اجارہ داری داری قائم
کردیتی ہے جو صارفین یعنی عام آدمی کو لوٹتا رہتا ہے۔
ہاورڈ انسٹیٹیوٹ آف ڈولپمنٹ کے سربراہ جیری سچیز نے کیا خوب کہا ہے: ’’واشنگٹن کی 19 ویں اسٹریٹ میں بیٹھے ہوئے 1000 معیشت دان 75 ترقی پذیر ممالک میں ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی پر اپنی مرضی کی معاشی پالیسیاں اور شرائط ڈکٹیٹ کراتے ہیں ۔ ‘‘
دراصل آئی ایم ایف ایک ایسا ناقص نظام معیشت لاگو کر رہا ہے جس میں
لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ برآمدات والی اشیاء پیدا کریں اس کے
بجائے ملکی ضروریات کی جو مختلف اشیاء ہیں وہ پیدا کرنا چھوڑ دیں۔ دنیا
کے غذائیت کی قلت والے بچوں میں سے 80 فیصد ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں
کاشکاروں کو لالچ، دباؤ، اور پالسیوں کے ذریعے مجبور کیا گیا ہے کہ وہ
مقامی آبادی کی خوراک کی اجناس پیدا کرنے کے بجائے برآمدات کی اشیاء پیدا
کریں جو کہ مالدار ممالک کی ضروریات ہوں۔ آئی ایم ایف ملکی یا چھوٹی
صنعتوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تاکہ کثیرالقومی کمپنیوں کی مصنوعات کے لئے
مارکیٹ پیدا ہوسکے۔ یہ وہ صورتحال ہے جہاں چھوٹا کاروباری اور کاشتکار
مقابلہ یا مسابقت نہیں کر سکتا۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک متعلقہ ممالک کو مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ
غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پر کشش حالات بنانے کے واسطے مزدوروں سے
متعلق قوانین میں نرمی کریں۔ اجتماعی سودہ کاری کے قانون کو بھی ایک طرف
رکھ دیں۔ اس کے نیتجے میں کارپویشنوں کو سستا مزدور مل جاتا ہے جسے کسی
بھی وقت ملازمت سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے چند مناظر ہم پاکستان میں دیکھ
رہے ہیں س۔ ملک میں موجود ٹھیکہ داری سسٹم، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ
نتیجے میں ملازم پیشہ افراد کو حاصل سماجی تحفظ کا نظام عملا ختم
ہوگیا۔
جنوبی کوریا، انڈونیشیا، تھائلینڈ میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے
نیتجے میں 200 ملین نئے غریب پیدا ہوئے۔ غربت جاری ہی نہیں رہتی بلکہ
بڑھتی رہتی ہے اور آئی ایم ایف کا قرضہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ اب ہم خود
فیصلہ کرلیں کہ عالمی ادارے کی جانب سے ہماری معیشت کی صحت کی چٹ کی کیا
معنی ہیں؟
Sohail Sangi - July 7, 2015
Sohail Sangi - July 7, 2015
No comments:
Post a Comment